اَعمالکُم عمُالکم
" بے شک تمھارے اعمال تم پر حاکم بنائے جاتے ہیں اور جیسے تم ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کئے جائینگے"
1.ارشاد باری تعالٰی ہے: ظہرَ الفسَادُفِی البَرِّ وَالبَحرِ بِمَا کَسَبَتُ اَیدِیُ النَاسِ لِیَذیُقَہمُ بَعضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَھم یَرجِعُون(الروم: 1ؑ)
ترجمہ: "خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دے؛ تا کہ وہ باز آجائیں"۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے: "وَمَااَصَابَکم مِن مُّصِیبَتہٍ فَبِمَا کَسَبَتُ اَیدکُم وَ یَعفُوا عَن کَثیرٍ "(الشوریٰ:30)
ترجمہ: " اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیئے کاموں سے(پہنچتی ہے)اور بہت سارے( گناہوں) سے تو وہ(اللہ تعالی) در گزر کر دیتا ہے۔ ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیئے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بوضاحت سمجھ میں آرہا ہے کہ اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اور فسادات وغیرہ بھی نہ ہو گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ" نافرمانی سبب پریشانی اور فرمانبرداری سبب سکون ہے"۔
2۔۔"وعن أبي الدرداء قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى يقول : أنا الله لا إله إلا أنا مالك الملوك وملك الملوك، قلوب الملوك في يدي، وإن العباد إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرحمة والرأفة، وإن العباد إذا عصوني حولت قلوبهم بالسخطة والنقمة، فساموهم سوء العذاب فلا تشغلوا أنفسكم بالدعاء على الملوك، ولكن اشغلوا أنفسكم بالذكر والتضرع كي أكفيكم ملوككم " . رواه أبو نعيم في " الحلية " (مشكاة المصابيح)
ترجمہ: حضرت ابو دردداءرضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی (حدیث قدسی) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میے ہاتھ(یعنی میرے قبضہء قدرت ) میں ہیں؛ لہٰذا جب میرے (اکثر) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں(ظالم) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں۔اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں( عادل اور نرم خو) بادشاہوں کےدلوںکوغضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ(بادشاہ) ان کی سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ اسی لیئے( ایسی صورت میں)تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیئے بد دعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کی کے اپنے آپ کو(میرے) ذکر میں مسغول کرو، تا کہ میں تمھارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں۔ اس روایت کو ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں نقل کیا ہے۔
3۔حضرت حسن بصری ؒ سے منقہ ہے: " اعمالکم عُمالُکُم، وَ کَماَ تَکُونوُ ا یولی عَلیکُم" یعنی تمھارے حکمران تمھارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمھارے اعمال درست ہوں گے تو تمھارے حکمران بھی درست ہوں گے، اگر تمھارے اعمال خراب ہوں گے تو تمھارے حُکمران بھی خراب ہوں گے۔
4۔ منصور ابن الاسود ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش ؒ سے اس آیت ( وَ کَذالِکَ نوَلی بَعضَ الظٰلِمیِن بَعضاً) کےبارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نےفرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اس بارے میں سنا کہ: جب لوگ خراب ہو جائیں گے و ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے۔
5۔ امام بہیقی نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہےکہ: اللہ تعالٰی ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ریایا کے ساتھ حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال و کردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال و معاملات بالعموم راست بازی و نیک کرداری کے پابند ہوتےہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی اور طغیانی میں مبتلا ہو جاتےہیں اور ان کے اعمال و معاملات عام طور پر بدکرداری کے سانچے میں ڈھل جاتےہیں تو پھر ان کا عادل و نرم خو حکمران بھی ان کے حق میں غضبناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم و ستم اور اس کی سخت گیری و انصفی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیئے بددعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے، ایسےحالت میں اپنی بد اعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کیا جائے، اللہ تعالٰی کے دربارمیں عاجزی و زاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الہٰی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل و انصاف اور نرمی و شفقت کی طرف پھیر دے۔
3۔حضرت حسن بصری ؒ سے منقہ ہے: " اعمالکم عُمالُکُم، وَ کَماَ تَکُونوُ ا یولی عَلیکُم" یعنی تمھارے حکمران تمھارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمھارے اعمال درست ہوں گے تو تمھارے حکمران بھی درست ہوں گے، اگر تمھارے اعمال خراب ہوں گے تو تمھارے حُکمران بھی خراب ہوں گے۔
4۔ منصور ابن الاسود ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش ؒ سے اس آیت ( وَ کَذالِکَ نوَلی بَعضَ الظٰلِمیِن بَعضاً) کےبارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نےفرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اس بارے میں سنا کہ: جب لوگ خراب ہو جائیں گے و ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے۔
5۔ امام بہیقی نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہےکہ: اللہ تعالٰی ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ریایا کے ساتھ حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال و کردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال و معاملات بالعموم راست بازی و نیک کرداری کے پابند ہوتےہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی اور طغیانی میں مبتلا ہو جاتےہیں اور ان کے اعمال و معاملات عام طور پر بدکرداری کے سانچے میں ڈھل جاتےہیں تو پھر ان کا عادل و نرم خو حکمران بھی ان کے حق میں غضبناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم و ستم اور اس کی سخت گیری و انصفی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیئے بددعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے، ایسےحالت میں اپنی بد اعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کیا جائے، اللہ تعالٰی کے دربارمیں عاجزی و زاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الہٰی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل و انصاف اور نرمی و شفقت کی طرف پھیر دے۔
كشف الخفاء ت هنداوي (2/ 149):
"كما تكونوا يولى عليكم، أو يؤمر عليكم. قال في الأصل: رواه الحاكم، ومن طريقه الديلمي عن أبي بكرة مرفوعًا، وأخرجه البيهقي بلفظ "يؤمر عليكم" بدون شك، وبحذف أبي بكرة؛ فهو منقطع. وأخرجه ابن جميع في معجمه، والقضاعي عن أبي بكرة بلفظ: "يولى عليكم" بدون شك، وفي سنده مجاهيل. ورواه الطبراني بمعناه عن الحسن: "أنه سمع رجلًا يدعو على الحجاج؛ فقال له: لا تفعل إنكم من أنفسكم أتيتم، إنا نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يتولى عليكم القردة والخنازير؛ فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم".
"كما تكونوا يولى عليكم، أو يؤمر عليكم. قال في الأصل: رواه الحاكم، ومن طريقه الديلمي عن أبي بكرة مرفوعًا، وأخرجه البيهقي بلفظ "يؤمر عليكم" بدون شك، وبحذف أبي بكرة؛ فهو منقطع. وأخرجه ابن جميع في معجمه، والقضاعي عن أبي بكرة بلفظ: "يولى عليكم" بدون شك، وفي سنده مجاهيل. ورواه الطبراني بمعناه عن الحسن: "أنه سمع رجلًا يدعو على الحجاج؛ فقال له: لا تفعل إنكم من أنفسكم أتيتم، إنا نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يتولى عليكم القردة والخنازير؛ فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم".
وفي فتاوى ابن حجر: وقال النجم: روى ابن أبي شيبة عن منصور بن أبي الأسود قال: "سألت الأعمش عن قوله تعالى ﴿وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظّٰلِمِينَ بَعْضاً﴾ ما سمعتهم يقولون فيه؟ قال: سمعتهم: إذا فسد الناس أمر عليهم شرارهم". وروى البيهقي عن كعب قال: "إن لكل زمان ملكًا يبعثه الله على نحو قلوب أهله؛ فإذا أراد صلاحهم؛ بعث عليهم مصلحًا، وإذا أراد هلاكهم؛ بعث عليهم مترفيهم". فقط واللہ اعلم
مولانا طارق جمیل صاحب کے مفید بیانات درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا طارق جمیل صاحب کے مفید بیانات درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں۔
Search in the Quran: | |
in | |
Download Islamic Softwares FREE | Free Code |
www.SearchTruth.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں