نعت
رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
محترم جناب ماہر القادری صاحب مرحوم
حریت کاملہ کا مبلغ اعظم ﷺ
دماغ انساں کا ہر
تخیل ہوس کی ظلمت میں گھر چکا تھا
غریب تھے ذلت
سراپا، امیر تھے نخوت مجسم
ستم کی بجلی تڑپ
تڑپ کر وفا کا خرمن جلا رہی تھی
رگوں میں نشتر،
چھری گلے پر، ضمیر بیتاب، روح مضطر
کہ جیسے چٹکی میں
کوئی لے کر گلاب کے پھول ہی مسل دے
مگر غرض تھی کسے
جو سنتاحریم عشرت کے قہقہوں میں
ادھر جبیں عاجزی
سراپا، ادہر نظر میں غرور باطل
امنڈ اٹھے رحمتوں
کے چشمے، ابل پڑے حریت کے دریا
امارتوں کی
بلندیوں نے جھکا ہی دیں خاک پر جبینیں
اتر گیا چشم خود
سری سے خمار صہبائے قیصریت
ابھر کے پہنچیں
بلندیوں پر غلام اقوام پستیوں سے
کھڑے کیئے ایک صف
میں لا کر امیر و مفلس غلام و آقا
ادھرعمر اور بلال
حبشی، جناب بوبکر اور سلماں
بتا دیا راز
زندگی کا، سکھا دیئے گُر ترقیوں کے
پہاڑ کے ہو گیا
مقابل جہاں کا اک اک حقیر تنکا
کئے گئے عرصہ ء
جہاں میں اصول جمہوریت مدون
سلام اے مرکز
اخوت، سلام اے رحمت دو عالم
صلی اللہ علیہ
وسلم
تحقیق و پیشکش:
سید مجاہد گیلانی کوئٹہ ممبر ( ماہنامہ تدریس القرآن کراچی پاکستان)
|
ذلیل جنبات کی
فضاء میں ضمیر خوابیدہ ہو چکا تھا
بیاض اخلاق منتشر تھی، نظام بزم حیات برہم
جفا کے بادل گھرے
ہوئے تھے، گھٹا غلامی کی چھا رہی تھی
تباہیوں کا تھا اک
مرقع،غلام قوموں کا حال بد تر
غریب پامال ہو
رہے تھے جفا کے ہاتھوں کچھ اس طرح سے
یہ ہم نے مانا
ستم رسیدوں کی تھیں بہت دردناک چیخیں
پلٹ چکا تھا نظام
عالم،بدل چکی تھی فضائے دنیا
یہ دیکھ کر گرمئی
معاصی خدا کی غیرت کو جوش آیا
فضا غلامی کی
کانپ اٹھی، اک انقلاب آگیا جہاں میں
جھکی اخوت کے
آستاں پر مدائن و نینوا کی سطوت
گزر گیا حریت کا
طوفاں، غرور و نخوت کی چوٹیوں سے
حبیب حق کے نثار
جاؤں بدل دیا یوں نظام دنیا
ادھر علی کے قریں
اسامہ، ابو ہریرہ کے پاس عثماں
طلسم جبر و ستم
کے توڑے، مٹا دیئے نقش ذلتوں کے
ہوئی مساوات کی
وہ بارش کہ بھر دیئے جس نے دشت و صحرا
بدل گئیں نغمہ ء طرب سے ستم رسیدوں کی آہ و شیون
سلام اے حریت کے
داعی، سلام اے رحمت مجسم
صلی اللہ علیہ
وسلم
|
e='margin-bottom:0in;margin-bottom:.0001pt;
text-align:center;line-height:normal;mso-yfti-cnfc:1'>
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں